تاریخ چترال ـ دور رئیس


.شاہ ناصر رٸیس 1531عیسوی سے 1574عیسوی تک،۔شاہ طاہر کے انتقال کے بعد اس کا بھتیجا شاہ ناصر ابن شاہ اکبر تحت حکومت پر بیٹھا۔وہ ایک جری و با ہمت حکمران تھا۔اس نے اپنی ریاست کی وسعت کیجانب توجہ دی۔۔۔”کلاشوں پر حملہ اور فتح“۔شاہ ناصر کی تحت نشینی کے بعد ہی کلاشوں کے مشہور و طاقتور حکمران راجہ واٸیے کا انتقال ہوگیا اور اس کے جانشین آپس میں لڑنے لگے جس کی وجہ سے کلاش کی طاقت کم ہوگٸی۔اس موقعہ سے فاٸدہ اٹھاکر شاہ ناصر رٸیس نے لشکر تیار کرکے کلاش گوم پر حملہ کردیا۔کلاش کفار نے بھی سخت حملہ کیا مگر اسلامی لشکر کے منظم حملہ کی تاب نہ لاسکے اور ان کو شکست فاش ہوٸی۔چناچہ شاہ ناصر نے ایون،کلاش گوم،اور جنوب میں دروش،جنجرت،سویر۔کلکٹک،شیشی کوہ،وغیرہ پر اور نرست تک قبضہ کرلیا۔سینکڑوں کلاش مشرف بہ اسلام ہوٸے جو کافر رہے ان پر بیگار اور دیگر ٹیکس یعنی قلنگ با قسام بطورجزیہ لگا دٸیے گٸے۔یہ قلنگ 1954 عیسوی تک بدستور جاری تھے۔اس طرح چترال میں آخری غیر مسلم حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔اور سارا چترال نرست سے شندور و پونیال تک مسلم حکمران رٸیسوں کے قبضہ میں آگیا۔۔۔”فتح گلگت کی ناکامی“۔انہیں دنوں گلگت کے حکمران مرزا خان نے پھر پونیال پر حملہ کردیا۔شاہ ناصر جو مہم کلاش گوم سے فتح یاب لوٹا تھا سنگین علی کی سرکردگی میں ایک کثیر لشکر بھیجکر دوبارہ پنیال پر قبضہ کرلیا اور پیشقدمی کرکے گلگت پر بھی قبضہ کرلیا۔مرزا خان والٸی گلگت فرار ہوکر بلتستان کے حکمران علی شیر خان کے پاس پہنچا اور جلد ہی وہاں سے ایک بڑا لشکر بطور کمک ساتھ لے آیا۔اور گلگت پر حملہ کردیا۔چترالی لشکر جو تعداد میں کم تھا مقابلہ کی تاب نہ لاکر پسپا ہوگیا۔اور گلگت پر دوبارہ مرزا خان کا قبضہ ہوگیا۔چترال کی یہ فوج جو سنگین علی کی سرکردگی میں گلگت بھیجی گٸی تھی واپس چترال آٸی۔۔۔”سنگین علی اور فتح باشگل اور اس کے واقعات“۔سنگین علی بابا ایوب تیموری کاپوتا تھا ۔جو شاہ اکبر رٸیس کے دور میں ہرات کی تیموری سلطنت کی بربادی کے بعد چترال آکر بس گیا تھا۔شاہ ناصر رٸیس سنگین علی کو بلاکر اسے خود تربیت دی۔اور تھوڑے ہی عرصہ میں اس کی بہادری اور عقلمندی کو دیکھ کر اس کو اپنا سپہ سالاربنا لیا اور چترال کا انتظام بھی اس کے سپرد کردیا۔اور اپنی لڑکی بھی اس کے عقد میں دیدی۔سنگین علی نے معرکہ گلگت وغیرہ میں نمایاں بہادری دکھاٸی۔وہ شاہ ناصر کا داست راست تھا۔جب 1585 عیسوی میں سنگین علی کا انتقال ہوگیا تو شاہ ناصر نے اس کے بڑے بیٹے شاہ محمد رضا کو اس کے والد کی جگہ حکومت کا انتظام سپرد کردیا اور اس کے دوسرے بیٹے شاہ محمد بیگ کو جنگی امور کا ذمہ دار بنایا۔چناچہ شاہ ناصر نے محمد بیگ کی سرکردگی میں ایک بھاری لشکر تیار کرکے باشگل پر حملہ کیا اور باشگل موجودہ(نورستان) کے کفار کو مطیع کرکے وہاں سے حکمران چترال کو خراج دینے لگا۔جو کٸی عہد تک جاری تھا۔۔۔”فتح نرست“شاہ ناصر رٸیس جنوبی اضلاع میں نرست علاقہ گبر پر بھی قبضہ کرلیا اور سلطنت وسیع کرکے آسمار تک پہنچاٸی۔۔۔”شاہ بوریاٸے ولی رحمة اللہ علیہ“۔۔اس عہد میں ایک باکمال درویش شاہ بوریاٸے ولی باہر سے آکر چترال میں رہتے تھے۔ان کے بارے میں بہت سی کرامات مشہور ہیں۔جن میں ایک یہ ہے کہ ان کی وفات و تدفین کے ایک ہفتہ بعد دوراہ کے درے پر چترال آنے والے ایک مسافر کو درویش مزکور دیکھاٸی دٸیے اور انھوں نے اس مسافر کو دو سیب دٸیے اور ہدایت کی کہ ایک سیب شاہ ناصر کو دیدو اور ایک سیب سنگین علی کو۔جب یہ شخص چترال پہنچا تو اسے ولی موصوف کی وفات کا حال معلوم ہوا تو نہایت حیران ہوا۔فرماٸیش کے مطابق ایک سیب شاہ ناصر کو اور دوسرا سنگین علی کے حوالہ کیا اور راستے کا قصہ ان کو سنایا۔شاہ ناصر نے اپنا سیب بھی سنگین علی کو دے دیا۔اور اس شخص کے بیان پر متعجب ہوکر قبر کو کھلواکر دیکھا تو اس میں سواٸے کفن کے کچھ نہ تھا۔شاہ صاحب کا جنازہ غاٸب تھا۔سنگین علی نے ایک سیب تو کھالیا اور دوسرا سیب ان کی قبر کے نزدیک بو دیا۔۔۔”ملا دانشمند رستاقی“۔۔شاہ ناصر کے عہد میں ملا دانشمند رستاق نے بدخشان سے یہاں آکر سکونت اختیار کی اور منصب قضاٸے چترار پر مامور ہوا۔اور اس کا بیٹا ملا محمد رفیق بھی عالم تھا۔باپ کے بعد قضا پر فاٸز ہوا۔ان کا خاندان یہاں معزز گزرا ہے۔ملا دانشمند مدعی سیادت بھی تھا۔۔۔”وفات“۔۔شاہ ناصر رٸیس تنتالیس سال حکومت کرنے کے بعد 1574عیسوی میں انتقال کر گیا۔وہ رٸیس حکمرانوں میں سب سے زیادہ نامور اور مشہور گزرے ہیں۔اور ان کے عہد میں رٸیسہ حکومت انتہاٸی عروج پر تھی۔اور حدود سلطنت آسمار سے گلگت تک پھیلی ہوٸی تھی۔اور پورے چترال میں امن و امان تھا۔

Comments

Popular posts from this blog